Sunday, 17 June 2018

Tum Ho Eid Meri... Zohra Khalid



شام کی نیلاہٹ ہر سو اترنے لگی تھی،  دوپہر کی جھلسا دینے والی گرمی کے بعد موسم اب قدرے بہتر تھا ، کچھ کچھ ٹھنڈی
ہوائیں بھی چل رہیں تھیں ،  پرندے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے ،  یہ بیسواں روزہ تھا ،  اونچے خوب صورت بنگلے قطار میں خاموشی سے کھڑے تھے،  دونوں ہاتھ وہ  ریلنگ پہ جمائے ، وہ جھک کر ٹیرس سے نیچے دیکھ رہی تھی ،  عجیب اداسی ہے ۔۔۔۔۔!  انتہائی غیر دلچسپ پھیکے سے مناظر ۔۔!   کوئی فینٹسی نہیں یہاں لائف میں   ۔۔!

اس نے لمحے بھر کو سوچا تھا ۔۔۔
     کاش کہ ۔۔۔۔!   میں کم از کم رمضان گزارنے یہاں نا آتی آپا کی بات مان کر ۔۔۔   اس نے اپنے سلکی بالوں کو پیچھے کی جانب کرتے ہوئے تنفر سے سوچا ۔۔۔۔!     
      حیات  آپی !  روزہ کھلنے میں بس چند لمحات باقی رہ گئے ہیں ، اس لیئے آپ نیچے تشریف لے آئیں  اماں جان نے یہ پیغام آپ کے لیئے بھجوایا ہے ۔۔۔!
        ایک پندرہ سولہ سال کا خوب صورت گہری آنکھوں(جسکی ان گہری سی آنکھوں میں شرارت ہی شرارت نمایاں تھی ) والا لڑکا  نیلی جینز پہ  سیاہ شرٹ ۔۔ صاف رنگت  ۔۔۔   اسکے قریب آ کھڑا ہوا۔۔۔
      وہ بے دلی سے مسکرائی،  آتی ہوں روہیل تم چلو نیچے ،     نا  ۔۔۔۔ نا ۔۔۔  آپ میرے ساتھ ہی چلیں ورنہ اماں حضور نے  افطار سے پہلے ہی روزہ کھلوا دینا ہے میرا ۔۔۔۔   اچھا چلو۔۔۔وہ اسکے ساتھ  چلنے لگی ۔۔۔
     مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ یہاں آ کر اچھی خاصی بور ہو رہی ہیں ۔۔۔؟   روہیل نے تنقیدی نظروں سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ۔۔۔
     نہیں ایسی بات تو نہیں ہے ۔۔۔  بس میں یہاں کی گرمی سے تھوڑا پریشان ہوں ۔۔ حیات نے نا چاہ کر بھی بات بنائی تھی ۔۔۔ (ورنہ اس کا بس چلتا تو اڑ  کر  منظر سے غائب ہو جاتی)
ہاں گرمی تو کافی ہے ۔۔۔  !   روہیل نے اسکی بات  مانتے ہوئےکہا، 
      ویسے روہیل ۔۔۔  تمہیں نہیں لگتا یہاں کے لوگ کافی غیر دلچسپ  ہیں ۔ یہ میرا گمان ہے ۔۔  حیات نے  اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
    آپ کا گمان غلط بھی تو ہو سکتا ہے حیات آپی ۔  روہیل نے اپنے ازلی سادہ انداز میں اسے یقین دلایا ۔۔۔
         حیات صرف مسکرائی تھی ۔۔۔
     
        مغرب کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ واپس ایک بار پھر ٹیرس کی طرف آئی تھی ۔۔۔۔   اس بار اسے قدرے حیرانگی ہوئی ۔وہاں پہلے سے روہیل کھڑا تھا ،  وہ جتنے دن سے یہاں تھی اس نے شاید ہی اسے ٹیرس پہ دیکھا تھا ،  روہیل یا تو اپنے کمرے میں ملتا تھا یا پھر اکثر  باہر ہوتا ، خالہ کا اکلوتا بیٹا تھا،   جبکہ  حیات  جب سے یہاں تھی وہ اکثر ٹیرس پہ ہی پائی جاتی تھی،  خاص کر شام کے وقت  ، اسے رنگ بھاتے تھے ، دلچسپ لوگوں سے ملنا اس کا شوق تھا ، اسی لیئے ہی وہ یہاں اتنے سالوں بعد آئی تھی ، لیکن ۔۔۔!   یہاں آ کر اس کا گمان بدل گیا تھا،  اسے شہر کراچی کے لوگ غیر دلچسپ اور یہاں کے مناظر بے رنگ لگے تھے ۔۔۔۔   
  "   گمان پھر گمان ہی ہوتے ہیں۔۔! یہ وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں "

نائس ۔۔۔ اس کے قریب آ کر وہ خوشدلی سے بولی ۔۔۔!     روہیل مسکرا دیا ۔۔۔   مجھے تمہاری  سنجیدگی دیکھ کر بلکل اندازہ نہیں ہوتا کہ تم اتنے کم عمر ہو روہیل ۔۔!   حیات نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
 روہیل اسکی بات پر مسکرا دیا پھر باہر کی جانب نگاہیں مرکوز کرتے ہوئے بولا۔۔      حیات آپی ۔۔!   
      " سنجیدگی کا تعلق عمر سے نہیں ہوتا "  روہیل  نے نرم لہجے میں کہا تھا اسکی نگاہیں اب بھی باہر کی طرف تھیں ۔۔۔۔
      حیات نے صرف اسکی بات سنی تھی کہا کچھ نہیں ۔۔۔
    کچھ دیر بدستور خاموشی چاھی  رہی ۔۔۔۔   وہ دونوں اسی طرح سے باہر کی خاموشی کو دیکھتے رہے ۔۔
      عجیب بات ہے ۔۔  یہاں کی زندگی انتہائی تیز رفتار ہے ۔۔  لوگ اپنے آپ میں مگن ہیں ۔۔!   حیات  نے کہا۔۔۔
       
    "میرا تو گمان ہے اس وقت سب کی زندگی ہی تیز رفتار ہے ۔۔!  "
      وہ واقعی اسے لاجواب کر گیا تھا۔
   وہ خاموش ہو گئی ۔۔
     کیا خیال ہے آئسکریم کھانے چلیں ۔؟   چند لمحوں بعد روہیل نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے مسکرا کر پوچھا ۔۔۔۔
      چند لمحے وہ  کچھ سوچتی رہی پھر اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔
      ڈیٹس گریٹ ۔۔!   آج آپ کو شہر کراچی کی شاندار سی آئسکریم کھلاتا ہوں ۔   روہیل مسکرا کر بولا۔۔  اسکی گہری آنکھوں  میں شرارت نمایاں تھی،

" حیرت ہے یہ بچہ سنجیدہ ہے لیکن اسکی آنکھیں شرارت سے بھر پور ہیں ۔"   حیات نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے سوچا۔۔۔۔
    "  گمان پھر گمان ہی ہوتے ہیں "

       وہ اسکی رہنمائی میں چلتی ہوئی باہر تک آئی ،
 
             چند لمحوں بعد وہ وہاں موجود تھے ۔۔،  وہ  یہاں کے مناظر  کو دیکھنے لگی،  خوش مزاج دلچسپ اور رنگوں میں رنگے مناظر ،
    " گمان پھر گمان ہی ہوتے ہیں یہ غلط بھی ہو سکتے ہیں "  اسے روہیل کی بات یاد آئی ۔۔۔
       سامنے بیٹھے روہیل کو دیکھا جو قدرے اطمینان سے اپنی آئس کریم کھا رہا تھا ۔   
       آئس کریم سے فارغ ہو کر  روہیل نے گاڑی ایک لمبے رستے کی طرف موڑ لی  ،  جہاں کافی سکون تھا، ٹریفک کا شور نا ہونے کے برابر تھا ،  وہ اسکی ڈرائیونگ کے انداز سے متاثر ہوئی تھی ، اتنی کم عمری میں اتنی سنجیدہ اور پر سکون  ڈرائیونگ ۔۔!   
        وہ انہی سوچوں میں گم اسے تک رہی تھی، تب ہی گاڑی  رک گئی ، اس نے حیرانگی سے روہیل کی جانب دیکھا ،   ۔۔     اہاں۔۔۔   میرا خیال ہے پانی ڈالنا ہو گا   ، آپ ایسا کریں اندر ہی بیٹھیں میں کرتا ہوں کچھ ، وہ اپنے ازلی سادہ انداز میں کہتا باہر نکلا،  وہ خاموشی سے بیٹھی رہی ،  سیٹ سے ٹیک لگا لی ،  اور باہر دیکھنے لگی جہاں روہیل  بونٹ کھولے کھڑا تھا ، چند لمحوں بعد وہ واپس اندر آیا ، پیچھے کی طرف کچھ ڈھونڈنے لگا،  پھر گہری سانسلے کر بولا،  غلطی ہو گئی حیات آپی۔۔۔۔۔۔!    میں نے پانی کی بوتل نہیں رکھی ۔!     اوہ ۔۔۔!   وہ پریشان سی بولی اب ۔۔؟ 
     دیکھتا ہوں ۔۔۔!   کہیں سے پانی ملے تو ہی اسٹارٹ ہو گئی اب ۔۔   اچھا ایسا کریں آپ میرے ساتھ ہی آ جائیں میں رات میں یہاں تنہا آپ کو نہیں چھوڑ سکتا ،۔۔۔    وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اسکے ساتھ باہر آ گئی ۔  باہر آ کر احساس ہوا کہ  ٹھنڈی ہوائیں چل رہیں ہیں ۔۔۔   روہیل نے گاڑی کو لاک کر کے سامنے بنے بنگلے کی طرف قدم بڑھائے ،  وہ بھی اسی کے ساتھ چلنے لگی ۔۔،  روہیل اس کے قریب آیا اور اسکا ہاتھ تھاما ، حیات نے حیرانگی سے روہیل کی جانب دیکھا،  جو اب روڈ کراس کر رہا تھا ،  یہاں ٹریفک نا ہونے کے برابر تھا لیکن اسکی یہ احتیاط اور محبت دیکھ کر حیات کا گمان بدلا تھا ،    کسی بنگلے کے دروازے کے باہر آ کر روہیل نے اسکا ہاتھ چھوڑا تھا،    ایک دو بار بیل بجانے کے بعد، کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی ۔۔    کچھ لمحوں بعد دروازہ کھلا تھا ۔۔۔   جہاں پہ حیات کو  پہلی نظر ڈالتے ہی ،  دوسری نظر ڈالنے کی غلطی نہیں کرنی پڑی ،

بلا شبہ وہ  بلا کا ہینڈ سم تھا،   ایک ہاتھ  سے موبائل کان سے لگائے ، دوسرے ہاتھ کو  گیٹ پہ رکھے اپنی گہری  سبز آنکھیں (جو رات کے  اس وقت بھی چمک  رہی تھیں ) ان سے ان دونوں کا تنقیدی جائزہ لے رہا تھا ، نیلی جینز پہ لائٹ گرے کلر کی شرٹ لمبا قد ۔۔۔۔ اور صاف رنگت ،   وہ اس کو دیکھنے میں اس قدر محو تھی کے کچھ اندازہ نا کر پائی نا کچھ کہہ سکی ،  روہیل نے آگئے بڑھ کر اپنا تعارف کروایا ،  اور  یوں زحمت دینے کی وجہ بتائی ،  چند لمحے وہ سوچتی نگاہوں  سے  روہیل اور اسے( وہ اب بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی )  دیکھتا رہا  پھر خوشدلی سے مسکرایا، 
    کوئی بات نہیں ۔۔۔   میں آپ کی مدد کرتا ہوں ،  آپ بس چند منٹ رکیں میں ابھی  آیا ۔۔۔ 
      ڈونٹ وری حیات آپی !
        گاڑی ٹھیک  ہو جائے گئی ،  روہیل نے حیات کے چہرے پہ ہوائیاں دیکھ کر کہا ۔۔۔۔   وہ مسکرا کر رہ گئی وہ اس لمحے خود پہ حیران تھی کہ اس کے حواس باختہ کیوں ہو گئے ۔۔
   ہینڈسم اور خوبصورت لڑکے اس نے پہلے بھی دیکھے تھے، لیکن تب بھی وہ کبھی اس طرح سے مدہوش نہیں ہوئی جیسے آج اس اجنبی کو دیکھ کر ہوئی تھی،   اسے یاد آیا  اس  نے روہیل سے کہا تھا ۔۔۔!
    " یہاں کے   لوگ کافی غیر دلچسپ  ہیں ۔ یہ میرا گمان ہے ۔۔"
       " اور روہیل نے کہا تھا آپ کا گمان غلط بھی ہو سکتا ہے "
       روہیل نے ٹھیک کہا تھا ۔  اسکا گمان واقعی غلط تھا " یہاں کے لوگ تو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کو مد ہوش کرنے کے لیئے بھی کافی تھے "
    چند لمحوں بعد وہ باہر آتا دکھائی دیا اس بار اسکے ہاتھ میں موبائل نہیں تھا ،  بلکہ  پانی کی بوتل تھی چہرے پہ ایک سنجیدہ مگر دلفریب مسکراہٹ تھی ۔۔۔۔!     وہ واقعی دیکھے جانے کے قابل تھا ۔۔ ! 
      وہ اب روہیل سے گفتگو کر رہا تھا ، حیات کی نگاہیں اس کی جانب  دیکھنے سے باز نہیں آ  رہیں تھیں،
     اب کی بار اس نے حیات کی جانب دیکھا تھا ۔۔   اور  اس لمحے حیات کو لگا اس سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے ،   محترمہ آپ گاڑی کے اندر ہی بیٹھ جائیں  اتنی رات میں آپ کا  یوں کھڑا ہونا مناسب نہیں ،  مدھم آواز میں وہ اسکی جانب دیکھتے ہوئے بولا  ،    اففف ایک تو یہ بلا کا ہینڈ سم  اور اوپر سے سارا ادب اسی کو چھو کر گزرتا ہے ۔۔   ہوں۔۔۔۔  " محترمہ " روہیل نے اسے اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا    وہ سر جھٹک کر اندر جا بیٹھی ۔۔۔۔
       کچھ دیر تک وہ اور روہیل باہر کھڑے گاڑی  کے ساتھ کچھ کرتے رہے ، رات کی سیاہی میں اب نید کا غمار اب اس کی آنکھوں سے جھلکنے لگا ،  اس نے  بند آنکھوں سے ایک بار پھر اسکی جانب دیکھا جو اب بھی سر جھکائے کھڑا تھا ایک ہاتھ سے گاڑی میں شاید پانی ڈال رہا تھا چہرے پہ مسکراہٹ تھی شاید روہیل کی کسی بات پہ مسکرا رہا تھا ۔۔۔    حیات کی آنکھیں اب بند ہونے لگیں ۔۔    آخری منظر جو اس کی آنکھوں نے دیکھا تھا وہ اس کا مسکراتا چہرہ تھا ۔۔۔   اسکی گہری سبز آنکھیں تھیں جو ضرورت سے زیادہ ہی حسین  تھیں ۔۔۔ 
   
     آنکھ اسکی تب کھلی جب روہیل نے اسے  جگایا ۔۔۔   اٹھیں حیات آپی گھر میں چلیں ،  اندر جا کر سو جائیں آرام سے ۔۔    وہ اسے جگاتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔     روہیل ہم  آ گئے ۔۔۔؟ 
    جی  گاڑی ٹھیک ہو گئی تھی،  مگر سو چکیں تھیں میں نے اٹھانا مناسب نہیں سمجھا تب ۔۔۔   وہ اسے سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے بولا ۔۔۔    وہ ابھی بھی نید میں جھول  رہی تھی ۔۔۔
     اور  وہ  لڑکا  ۔۔؟   حیات نے بند آنکھیں کھولتے ہوئے پوچھا ۔۔
     ہاں  میں شکریہ بول دیا تھا اسے روہیل نے اس کے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔۔۔
     وہ چپ  ہو گئی ۔۔
       حیات آپی  سو جائیں اب ۔۔  سحری میں بھی اٹھنا ہے آپ کو ۔۔  وہ اسے ہدایت دے کر جانے لگا  ۔۔۔
     روہیل ۔۔   حیات نے اسے پکارا ۔۔
      روہیل نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا
     تم ٹھیک کہا تھا۔۔۔ " گمان گمان ہی ہوتے ہیں یہ غلط بھی ہو سکتے ہیں "
     روہیل مسکرا دیا۔۔۔ 
     سو جائیں اب۔۔   شب بخیر ۔۔
      وہ دروازہ لاک کر کے جا چکا تھا۔

ایک بار پھر وہ گہری سبز آنکھیں اسکے ذہن میں آئیں۔۔
     اگلے ہی لمحے اس نے اپنی سوچ کو جھٹکا تھا ۔۔۔   وہ کسی چیز اپنے ذہن پہ سوار کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔
      لیکن ایسا ہوا نہیں ،  وہ اسکے ذہن میں آتا رہا ،  یہاں تک کے اس کی آنکھ لگ گئی ۔۔۔۔
     
        صبح سحری کرنے کے بعد وہ واپس اپنے کمرے میں چلی گئی تھی، روہیل کا گمان تھا شاید رات اس کی نید پوری نہیں ہوئی ،
      لیکن اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ کافی دیر تک اسے سوچتی رہی ۔۔
     وہ "حیات عالم" تھی ،  کسی سوچ کہ سہارے زندگی گزارنا اس کے بس میں نہیں تھا  ۔۔
    چند لمحوں بعد وہ اٹھ کر بیٹھی ۔۔
   اپنے دونوں ہاتھوں سے کنپٹی کو سہلاتی رہی ، 
     وہ اب ایک  کچھ سوچ رہی تھی ،
   
  "   زندگی میں اتفاق خود پیدا کئیے جاتے ہیں "       وہ زندگی حسین  ہو ہی نہیں سکتی جس میں اتفاق سے کچھ نیا نا ہوا ہو "
           حیات عالم بھی   اب نئے سرے سے اپنے ذہن میں آنے والے پلان کو ترتیب دے رہی تھی،۔۔۔ 
   
   
      روہیل ۔۔۔۔  روہیل۔۔۔    وہ اسے پکارتی  ہوئی اس کے کمرے کی طرف آئی ۔۔۔۔   ( یہاں سے جانے کا ارادہ اب بدل گیا تھا )
      جی ۔۔   روہیل نے تنقیدی نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔
   
           تم نے اسے دیکھا تھا ۔۔۔؟ حیات نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔

   " ہاں دیکھا تھا ۔۔۔" 
 "  اچھا کون ہے ۔۔؟ "  (وہ حیران ہوئی روہیل کیسے جان گیا وہ کیا سوچ  رہی )۔
 
       بڑا پیارا ہے ، بلکہ  بہت حسین ہے سفید رنگت ، لمبا قد ، سلکی بال ، سبز آنکھیں( حیات کا دل مٹھی میں آیا تھا)  اور لمبی موٹی سی دم ۔۔۔
      دم "۔۔۔۔   ؟؟   وہ آنکھیں موندے  کسی حسین تصور میں کھوئی تھی جھٹکے  سے سیدھی ہوئی ۔۔   اسکی دم بھی ہے ۔۔۔   ؟

    " ہر بلے کی دم ہوتی ہے حیات آپی"
 
   بلا ۔۔۔۔  ؟؟   کونسا بلا  روہیل  ۔۔؟
 
  جو میرا ہے  " اسپیڈو "  اسکا کہہ رہیں نا آپ ؟؟
   
    فٹے منہ ۔۔۔   وہ بڑ بڑا کر رہ گئی
     روہیل  اب " اسپیڈو "  کی تعریفیں کر رہا تھا     ۔۔    لیکن  اسکا دماغ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا ۔۔۔ 
      روہیل   جس لڑکے نے ہماری مدد کی تھی  اس نے کچھ بتایا اپنے بارے میں ۔۔۔؟ 
      ہاں  بتا تو رہا تھا کچھ مگر میں بھول گیا  ۔۔   روہیل  نے  موبائل دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
     واٹ ۔۔ ؟   تم   بھول گئے ۔۔ ؟
     روہیل نے اسکی جانب دیکھا  وہ حیران ہوا۔۔
   میرا مطلب اپنے مسیحا کی بات کو ایسے کیسے بھول  سکتے ہیں ہم ۔۔۔ حیات نے بات بنائی ۔۔۔

     زیادہ کچھ خاص نہیں بتایا تھا ۔
 بس یہ بتایا تھا ، کہ وہ یہاں اکیلا رہتا ہے ،  کچھ دن کے لیئے آیا ہوا ہے  چاند رات  تک کام ہے یہاں پھر چلا جائے گا ۔۔   روہیل اپنی دھن میں بول رہا تھا۔۔۔

    جب کہ حیات کا دماغ ایک بات پہ اٹک گیا  تھا " وہ چاند رات تک چلا جائے گا "     
       ایسا کیا کام ہے اسے جو چاند رات تک ہے صرف ۔۔۔؟    وہ خود سے الجھنے لگی ۔۔۔۔

      ایک خیال ذہن میں آتے ہی دوبارہ روہیل کے کمرے  میں گئی ۔۔۔
     روہیل  ۔۔۔
    جی حیات آپی ۔۔!     دن میں تیسری بار اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر اب روہیل کو معاملے کی سنجیدگی کا علم ہوا۔۔۔۔   سب  خیریت ہے ۔۔؟   میرا مطلب آپ پریشان لگ رہیں ہیں ۔
     " میں ٹھیک ہوں لیکن تمہارے شہر میں یقینا کچھ غلط ہونے والا ہے "  وہ پراسر انداز میں بولی ۔۔۔
      جی ۔۔۔؟   یہ کیا کہہ رہیں آپ ۔۔۔؟
    روہیل کا دماغ سن ہوا تھا ۔۔۔
    روہیل میری بات غور سے سنو کل والا مسیحا  چاند رات کو کچھ کرنے والا  ہے  ہمیں اس سے پہلے ہی پولیس  کو بتانا چاہیئے ۔۔۔۔  حیات نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔      اوہ کم آن حیات آپی ۔۔
    کسی اجنبی پہ ہم  ایسے کیسے الزام لگا سکتے ہیں اور وہ بھی اس پہ جس نے  ہماری مدد کی تھی ۔۔  روہیل نے قدرے خفگی سے کہا۔۔۔
      روہیل ہم الزام تھوڑی لگا رہے ہیں ۔۔
      ہم پورے ثبوت کے ساتھ جائیں گئے ۔۔۔    حیات نے پر عظم لہجے میں کہا۔۔۔
     اوہ اچھا  اور  آپ کو کیا لگتا ہے یہ ثبوت ہمیں آسمان سے بارش کی طرح ملیں گئے ۔۔۔؟   روہیل نے سنجیدگی سے کہا ۔۔۔۔
       نہیں ہم تفتیش کریں گئے ۔۔
    "  ہم پولیس والے ، اسپیشل پولیس  یا فوج میں نہیں جو کسی اجنبی کی جاسوسی کریں ۔۔" روہیل نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے قدرے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔
       ہاں لیکن ہم اپنے ملک کے ساتھ برا  نہیں ہونے دیں  گئے ۔۔۔   تم میرا ساتھ دے رہے یا نہیں ۔۔۔؟   وہ اب صاف جواب چاہتی تھی ۔۔۔۔
     روہیل کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا ۔۔    اگر  آپ کا  یہ گمان غلط ثابت ہوا تو بہت نقصان ہو گا حیات آپی ۔۔
     
   "  اب کی بار ہر نقصان برداشت ہے "
     
 وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی تھی ۔۔۔۔

اچھا سنیں میں  روزے میں کہیں نہیں جاوں گا ۔۔۔
       ہاں ٹھیک روزے کے بعد چلیں گئے   " ٹارگٹ کی روٹین کا جائزہ لینے  "
    یہ ہمارے پلان کا پہلا اسٹیپ ہو گا
۔
     وہ گویا  پورا پلان اسے سمجھا رہی تھی ۔۔۔۔
    روہیل  صرف سر ہلانے پہ اکتفا کر رہا تھا۔۔۔۔۔

         
          چلیں ۔۔؟   روزے کے بعد حیات نے  روہیل سے کہا ، 
     ہاں ٹھیک ہے لیکن ایک بار پھر سوچ لیں ہم گہری کھائی میں کود رہے ہیں  حیات  آپی ۔۔۔   روہیل اب بھی خوف ذدہ تھا۔۔۔
     تم چلو میرے ساتھ وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔
     وہ گہری سانس لے کر اسکے پیچھے چل دیا ۔۔۔۔
        تمہیں  گھر تو یاد نا اسکا ۔۔۔؟
     ہاں وہ یاد ہے لیکن ابھی بھی وقت ہے سوچ لیں  کہیں کچھ الٹا ہی نا ہو جائے ۔۔۔۔    روہیل نے موڑ کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔      کچھ نہیں ہو گا  تم ایسا کرنا اس کے گھر سے قدرے فاصلے پہ گاڑی روکنا ۔۔۔۔ حیات نے ہدایت دی
     فاصلے پہ کیوں ۔۔؟    اس لیئے ہماری گاڑی اس نے دیکھی ہوئی ہے ۔۔۔

" اس نے تو ہماری شکلیں بھی دیکھی ہوئی ہیں "    روہیل نے طنزیہ لہجے میں کہا ۔۔۔
     تو ہم کونسا سامنے جا رہے ۔۔۔؟   ہم پیچھے  سے وار کریں گئے ۔۔  حیات نے کسی ماہر جاسوس کی طرح اپنا پلان بتایا تھا ۔۔۔
    مجھے ایسا کیوں لگ رہا آپ پاکستان  آئی ایس آئی کے لیئے کام کرتی رہیں ہیں ۔۔۔؟     اس بار روہیل کے لہجے میں حیرانگی تھی ۔۔۔
        روہیل جو میں کہہ رہی وہ کرو ۔۔اس بار حیات نے اسے ڈپٹا تھا ۔۔۔
     
   روہیل ہنس دیا ۔۔     گاڑی اب تیز رفتاری سے آگئے بڑھ رہی تھی ۔۔۔
 
    مجھے اب اندازہ ہو رہا تم  سنجیدہ + شرارتی  ہو ۔۔   حیات نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا

  "   میں نے کہا تھا نا آپ کے گمان غلط بھی ہو سکتے ہیں ۔۔ "   وہ خوش ہوا تھا ۔۔۔
       "واقعی ٹھیک کہا تھا تم نے "
     
 اس نے دل میں سوچا ۔۔۔۔
     
روہیل نے گاڑی قدرے فاصلے پہ کھڑی کر دی ۔۔ 

   اب ۔۔۔؟    اسکی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔۔
        دیکھو کوئی ہے  آ تو نہیں رہا سامنے سے ۔۔۔۔  حیات نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ 
     نہیں یہاں تو کوئی نہیں ہے لیکن اگر کسی نے ہمیں یہ سب کرتے دیکھ لیا تو ہم ضرور مشکوک ہو جائیں گئے اب بھی وقت ہے میں کہتا ہوں بھاگ لیتے ہیں ۔۔۔     ہمیشہ بزدلی کی بات کرنا ۔۔۔    یہ کہہ کر حیات نیچے اتری۔۔۔
    شال  کو مزید  لپیٹ لیا ۔۔۔
      آہستہ آہستہ سے قدم بڑھانے لگی تب پیچھے سے کاندھے پہ کسی نے ہاتھ رکھا  ایک چیخ اس کے حلق میں آ کر  اٹک گئی ۔۔۔   پلٹ کر دیکھا تو روہیل تھا وہ  سر جھٹک کر رہ گئی ۔۔۔

تمہیں میں نے اپنی  جاسوسی کرنے کا نہیں کہا ۔۔۔   اس مسیحا کی جاسوسی کرنی ہے ۔۔۔   وہ غصہ ضبط کرتے ہوئے بولی ۔۔۔
    ارے سنیں میں صرف یہ کہنے آیا تھا کہ اندر آپ جائیں میں یہیں  انتظار کر رہا۔۔۔
      اچھا اچھا ٹھیک ہے احتیاط سے  کھڑے رہنا ۔۔۔
     وہ اسے ہدایت کرتے ہوئے آگئے بڑھی۔۔۔ 
    دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے دور کھڑے روہیل کو دیکھا اسے دیکھ کر روہیل نے ہاتھ ہلایا تھا ۔۔ 

      اس سے پہلے وہ گھنٹی بجاتی ،  اس کی نگاہ کھلے گیٹ پہ پڑی۔۔۔
       پھر تجسس فطرت غالب آ گئی وہ دبے پاوں اندر داخل ہو گئی ۔۔۔

   کتا  ٹانگیں پسارے سو رہا تھا ۔۔ اس نے شکر ادا کیا اگر یہ جاگ رہا ہوتا تب واپس جانا پڑتا۔۔۔
      برآمدے  میں کھلنے والا کھڑکی کا دروازہ نیم وا تھا  وہ آہستہ سے برآمدے کی سیڑھیاں  چڑھنے لگی ، جب اندر سے آتی آواز  نے اس کے قدم روک لیئے ۔۔۔۔
   
   "  جی جی سر آپ فکر نا کریں یہ کام چاند رات والی رات ہی ہو گا "  اور پھر ایک جاندار سا قہقہہ ۔۔۔۔۔  یہ وہ مسیحا ہی تھا ۔۔۔۔۔    حیات ذرا سی دیوار کی اوٹ  میں ہو گئی  ۔۔۔

      اوہ  تو  دشمن یہاں واقعی میں ایسے نا پاک عزائم رکھتا ہے ۔۔۔  وہ تلخ ہوئی ۔۔۔   
     "  سر میری بات کا یقین کریں چاند رات کی رات ہی میں ۔۔۔۔۔۔   "    ابھی اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی وہ  دیوار کے ساتھ لگے گلدان سے ٹکرائی۔۔۔
     آواز نے اس کے اوسان خطا کر دئیے ۔۔۔۔۔  ایک منٹ میں آتا ہوں ، مسیحا کی آواز آئی ۔۔۔   ڈر کے مارے اسکا خون خشک ہو گیا (جو بھی تھا وہ واقعی اس وقت ڈر گئی تھی کہاں وہ عادی مجرم کہاں وہ معصوم لڑکی )
        وہ الٹے   قدموں وہاں سے بھاگی  گیٹ کھلا ہی رہ گیا بند کرنے کا ہوش نہیں رہا۔۔۔ 

     بس  اب ایک گمان رہ گیا تھا ۔۔
     وہ شحض کوئی عام انسان نہیں تھا  وہ تو دہشت گرد تھا۔۔۔۔
      وہ بھاگتی ہوئی گاڑی تک پہنچی ۔۔
   اسکے بیٹھتے ہی روہیل نے گاڑی چلا دی ۔۔۔۔   زوں۔۔۔۔۔ کے ساتھ  اس خوفناک بنگلے  سے گاڑی تیزی سے گزر گئی۔۔۔۔
     وہ اب بھی خوف ذدہ تھی ۔۔۔۔
       سانسیں رکیں ہوئی تھیں۔۔۔   اسکی حالت دیکھ کر روہیل نے پانی کی بوتل اسکی جانب کی ۔۔  جسے اس نے ایک ہی سانس میں پی لیا۔۔۔۔
       
  ہوا کیا ہے ۔۔۔؟   روہیل نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔
     روہیل   میرا گمان صیح ثابت ہوا وہ لڑکا دہشت گرد ہی ہے ۔۔۔۔
      چند لمحوں بعد  سانس درست کر کے بولی ۔۔۔۔
      واٹ ۔۔۔؟    یہ بات اس نے خود کہی آپ سے۔۔۔؟     اور ایک منٹ  سب سے بڑھ کر اپنے گھر سے  زندہ واپس آنے دیا ۔۔۔؟   روہیل نے ایک بار پھر طنز کیا تھا۔۔۔۔
     شٹ اپ روہیل۔۔۔۔   یہ بات میں نے خود اپنے کانوں سے سنی ہے ۔۔
     وہ  کسی  سے بات کر رہا تھا ۔۔۔
     
  حیات آپی مجھے اب بھی دال میں کچھ کالا ہی لگ رہا ہے ۔۔۔
     "مجھے گمان ہے آپ کا یہ گمان غلط بھی ہو سکتا ہے "
     
 "  تم تو نا ہمیشہ دشمن کی ہی سائٹ لینا  "  وہ اس بار جل کر بولی ۔۔

      " یاد رکھیں اس مشکل وقت میں اس دشمن  نے ہی ہماری مدد کی تھی ،اور جہاں تک میری نالج ہے ایک دہشت گرد کسی کی مدد نہیں کرتا "

    وہ پہلو بدل کر رہ گئی،
   لیکن جو کچھ وہ سن کر آئی کم از کم اس سب کے بعد  وہ روہیل کی بات کا یقین نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔

     حیات آپی  میں اب بھی کہہ رہا اس سارے معاملے کو چھوڑیں ، دفنایں یہیں اور اپنی منزل کی جانب چلیں۔
   
    تم تو اس معاملے میں  مجھے ورغلاو  مت میں ایک نہیں سننے والی تمہاری اب۔۔۔
      وہ خفگی سے بولی ۔۔۔۔

"   آپ تو ڈوبیں گئی ہی ، لیکن ساتھ مجھے لے کر ڈوبیں گئیں ۔۔۔"

    وہ ہنس دی ۔۔۔
       روہیل ہمیں چاند رات سے پہلے پہلے ہی کچھ کرنا ہو گا۔۔۔
     دن ہی کتنے رہ گئے ہیں چاند رات میں۔۔۔؟   روہیل نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا
    جو بھی ہے کسی بھی طرح اس کا پلان نا کام کرنا ہو گا   ۔۔۔۔
        بلکل آپ اپنے اس تیز رفتار دماغ سے  پلان ٹو ترتیب دیں میں آپ کے ساتھ ۔۔۔   روہیل نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا ۔۔۔۔
     
    سنو ۔۔۔!   جاسوسی کا دوسرا  اسٹیپ ہے جاسوس  پہ نظر رکھنا وہ کیا کرتا ہے  کس سے ملتا ہے کہاں جاتا ہے ۔۔۔    یہ سب ہمیں معلوم کرنا ہو گا ہمارے پاس وقت کم ہے سو ہم کل سے ہی پلان ٹو پہ ورک کریں گئے ۔۔۔۔
     
   جو حکم آپ کا  ۔۔۔  وہ مسکرا کر بولا۔۔
     اور یہ کام صبح روزے میں ہی ہو گا۔۔۔۔
     استغفراللہ ۔۔۔۔۔۔ ! 
 
  یہ نہیں ہو سکتا  اتنی سخت گرمی میں کسی کی جاسوسی کرنا نہیں نہیں یہ ہر گز نہیں ہو گا مجھ سے ۔۔ روزے کے بعد کا وقت صیح ہے ۔    روہیل نے خفگی سے کہا۔۔۔
    بلکل نہیں ۔۔۔  وہ کہاں جاتا ہے کس سے ملتا ہے  یہ سب ہمیں دن کے وقت ہی پتا چل سکتا ہے دن کی روشنی میں سمجھے تم۔۔۔؟  حیات نے آنکھیں نکالیں ۔۔۔۔
 
            بہت ظالم ہیں آپ۔۔۔۔  وہ دکھ سے بولا۔۔۔
       وہ سنی ان سنی کر گئی ۔۔   اس کے ذہن میں اس وقت وہ مسیحا ہی چایا ہوا تھا۔۔۔۔ 

  "  کم بخت  اتنا ہینڈ سم ہے اوپر سے دہشت گرد بھی " 

          حیرت ہے میرے سے دروازہ کیسے کھلا رہ گیا ۔۔۔۔    وہ کھلا گیٹ دیکھ کر حیرانگی سے بولا۔۔۔
       اور   وہ کون تھی ۔۔۔۔؟ 
      بڑی جلدی تھی اسے بھاگنے کی ۔۔
     جو بھی تھی کم از کم اپنا نام تو بتا جاتی اس طرح  کسی ( کاش کو جان جاتا وہ کوئی بھی اس کو کیا سمجھ رہی تھی ) کے گھر میں یہ گھنٹی بجائے بغیر داخل ہونے کا کون سا طریقہ ہے ۔۔۔۔۔۔
      وہ خفگی سے سوچنے لگا۔۔۔ ( یہ جانے بغیر کہ کسی کا اس کے بارے میں گمان کیا ہے ) 
       وہ نیچے پڑا گلدان اٹھاتے ہوئے سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔
   
      حیات آپی  بڑی گرمی ہے آج ۔۔۔
      روہیل نے سحری کے وقت اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔     تو کیا ہوا ۔۔۔؟    تم پانی پیو  اچھی طرح ۔۔      اور  نماز پڑھ کر آو پھر چلیں گئے ۔۔  وہ پانی کا گلاس پی کر اٹھ گئی۔۔۔۔
     وہ پرھاٹے کا آخری نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے بس یہ ہی سوچ رہا تھا کہ آخر یہ سب گمان کس حد تک صیح ثابت ہوں گئے ۔۔۔۔

       گاڑی تو تم سائیڈ پہ کھڑی کرو۔۔
    کم از ایسی جگہ جہاں ہم اس پر  با آسانی سے نظر رکھ سکیں ۔۔۔ حیات نے اسے ہدایت دی ۔۔۔۔
      کافی دیر گزر گئی اس دہشت گرد کے بنگلے سے کوئی نا نکلا۔۔۔۔۔
       روہیل اب اونگ  رہا تھا ۔۔۔
      نماز فجر کے بعد سے ہی وہ لوگ یہاں آ گئے تھے ۔۔۔۔ لیکن ابھی تک کسی کے آثار نہیں پائے گئے ۔۔۔۔
     افف ہو۔۔۔۔  تم کیوں سو رہے ۔۔۔؟
    اسے سوتا دیکھ کر وہ خفگی سے بولی ۔۔۔
      حیات آپی  سب روزے دار سحری کے بعد تھوڑی دیر سوتے ہی ہیں کم از کم کوئی ہماری طرح پائگل نہیں ہوتا جو روزہ رکھ کر کسی کی جاسوسی کرے۔۔۔    وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔۔۔
       اچھا اچھا ۔۔۔ بس ۔۔۔   آتا ہو گا باہر۔۔۔   حیات نے جیسے خود کو دلاسا دیا تھا۔۔۔۔۔   روہیل نے اپنی سیٹ پیچھے کی جانب کی اور قدرے آرام سے لیٹ گیا۔۔۔۔۔    وہ اسکی شکل دیکھ کر رہ گئی ۔۔۔۔۔   نید  تو اسے بھی آ رہی تھی لیکن  اس دہشت گرد کو پکڑنا جیسے اس کا اولین مقصد بن چکا تھا۔۔۔   
   ٹھیک نو بجے دروازہ کھلا تھا بند آنکھوں سے اس نے اس ظالم خوب صورت کو دیکھا جو اپنی گاڑی بیک کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ 
       سیاہ شرٹ ۔۔۔۔ کھلی کھلی رنگت، سبز آنکھیں ۔۔۔۔  وہ دیکھنے میں محو تھی کہ روہیل نے جھٹکے سے گاڑی اسٹارٹ کی۔۔۔۔۔   حد کرتی ہیں آپ ابھی رہ جاتے ہم یہیں اور وہ نکل جاتا ہاتھ سے ،  روہیل نے گاڑی اس کے پیچھے لگاتے ہوئے کہا۔۔ 
       وہ خاموش رہی ۔۔
       گاڑی اب سفید گاڑی کے پیچھے تھی ،   ایک گمان کے تحت حیات نے دہشت گرد کی گاڑی کا نمبر نوٹ کیا ۔۔۔
 
      کچھ دور جا کر سگنلز پہ گاڑی رک،   اوہ ۔۔۔۔   وہ  بائیں طرف آ کر رکا  تھا۔۔۔۔۔ حیات کا رخ اس طرف تھا    روہیل نے  نظریں پھیریں،  (کہیں وہ پہچان ہی نا لے )  حیات نے قدرے آرام سے اس ظالم خوب صورت دہشت گرد کو دیکھا ۔۔۔   اب کی بار اس نے بھی ان کی طرف نگاہ کی ،   اگلے ہی لمحے روہیل نے  فورا ایکسیلیٹر پہ دباو بڑھا دیا ۔۔۔۔

آج وہ کافی احتیاط سے اس کا پیچھا کر رہے تھے ۔۔۔۔
     گاڑی کچھ دور جا کر ایک گھر کے سامنے رک گئی ۔۔۔    حیات اور روہیل نے ایک دوسرے کی جانب حیرانگی سے دیکھا ۔۔۔۔ 
 
   اب ۔۔۔  ؟   روہیل نے اسکی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
      وہ  اب اپنی گاڑی لاک کر کے گھر کے اندر چلا گیا۔۔۔۔
       روہیل تم جاو کھڑکی وغیرہ سے کچھ سننے کی کوشش کرو۔۔۔
     نہیں بھئی مجھے ڈر لگ رہا ۔۔ روہیل نے سرد آہ بھر کر کہا ۔۔۔
   ایسا کرتے ہیں انتظار کرتے ہیں ۔۔۔
      حیات نے سیٹ  سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔
    حیات آپی  میرے روزے کا ہی خیال کر لیں کچھ اب بھی کہہ رہا بھاڑ میں ڈالیں گھر چلتے ہیں ۔۔  روہیل نے ایک بار پھر اسے سمجھانے کی کوشش کی ۔۔۔
     چپ کر کے انتظار کرو۔۔۔ وہ سنجیدگی سے بولی ۔۔۔
   
     
     ٹھیک آدھے گھنٹے بعد وہ واپس آتا دکھائی دیا ۔۔۔۔   لیکن بجائے  اپنی کار کی طرف جانے کے بجائے  وہ ہموار قدم چلتا ، بے حد  منفرد انداز میں چلتا  انکی گاڑی کی طرف آنے لگا۔۔۔
    اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔۔۔  حیات آپی یہ ہماری طرف آ رہا ہے روہیل نے دبی دبی آواز میں کہا ۔۔۔۔    یہاں حیات کو اپنے پیروں سے زمین نکلتی محسوس ہوئی تھی ،     ککک۔۔۔کک۔۔۔۔۔ اب کیا کریں روہیل ۔۔۔۔۔  ۔۔    وہ کپکپاتی  آواز میں بولی ۔۔
     میں  یہاں سے نکالا ہوں گاڑی۔۔۔   
    روہیل نے ایکسیلیٹر پہ دباو بڑھا دیا اور ایک جھٹکے سے اسکے  پاس سے گاڑی تیزی سے لے کر گزر گیا۔۔۔۔۔

     حیات پیچھے مڑ کر دیکھتی رہی یہاں تک کے وہ نظروں سے اوجھل  ہو گیا ۔۔۔۔۔     
     اوہ ۔۔۔۔  روہیل نے  گہری سانس لی تھی۔۔۔۔۔    بچ گئے ورنہ اس دہشت گرد کے ہاتھوں پہلے ہم شہید ہوتے ۔۔۔۔
       
    حیات نے سکون کی سانس لی کے وہ بچ گئے تھے ۔۔۔۔۔
        بس  اب ہم نہیں  کریں گئے اس کی جاسوسی ۔۔۔   !   روہیل نے اعلان کیا ۔۔۔
      ابھی تو گھر چلو بعد میں دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے ۔۔۔  حیات نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
 
       افطار کے بعد وہ اب اسکی گلی میں کھڑے تھے ،  ایک بار حیات نے دروازہ بھی چیک کیا کہ شاید کھلا ہو لیکن بے سود آج وہ بند تھا۔۔۔۔
      "میں تنگ   آ گیا ہوں حیات آپی "
    روہیل نے  خفگی سے کہا ۔۔۔
     تنگ تو وہ بھی آ گئی تھی، لیکن یہ  ملک کی عزت کا سوال ہے  ۔۔۔
     بس کچھ دن اور جاسوسی پھر اسے گرفتار کر وا ہی لیں گئے ،
      اللہ جانے یہ دن کب آئے گا روہیل نے سرد آہ بھری۔۔۔۔
       اسی لمحے وہ گھر سے نکلتا دکھائی دیا ،  روہیل نے ایکسیلیٹر پہ دباو بڑھا دیا،  انکی گاڑی اب اسکی گاڑی کے پیچھے تھی ، 
   
      آج  یہ کافی آہستہ نہیں چلا رہا ۔۔؟ حیات نے روہیل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔   ہاں مجھے بھی یہ لگ رہا۔۔
     
  لیکن انکا  گمان غلط ثابت ہوا کچھ دور جا کر اس نے گاڑی سے انکو گھیرے میں لے لیا۔۔۔
      حیات کا اپنا خون خشک ہوتا محسوس ہوا۔۔۔۔
     روہیل کو تو گویا  چپ لگ گئی۔۔۔
    وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے انکے سارے پلان اس طرح سے دم توڑیں گئے ۔۔۔
     وہ اب اپنی کار سے اتر کر حیات کی جانب آ رہا تھا ۔۔۔    نیلی جینز پہ سیاہ شرٹ   سبز آنکھوں میں خفگی سفید رنگت  اس وقت سرخی مائل ہو رہی تھی ( شاید غصے کا اثر تھا )
      اب کچھ  نہیں ہو سکتا حیات آپی ۔
      روہیل نے اسے قریب آتا دیکھ کر کہا۔۔۔۔
       حیات نے لمحے بھر کو آنکھیں بند کی۔۔۔۔
     مجھے اندازہ نہیں تھا میری نیکی مجھے بھاری پڑے گئی ۔۔۔  وہ کہتے ہوئے گاڑی کے شیشیے کی قدرے قریب آیا۔۔    وہ روہیل کی طرف کھسکی ۔۔۔
   محترمہ  پوچھ سکتا ہوں اس جاسوسی کی وجہ ۔۔۔؟  طنز میں ڈوبی آواز پہ  وہ ہوش میں آئی ۔۔ وہ ہاتھ بڑھا کر  کار کا  شیشہ چڑھانے لگی لیکن  ارحم  نے ہاتھ بڑھا کر اسکا ہاتھ پکڑ  لیا ۔ اور قدرے زور سے چھوڑا ۔۔۔    وہ ۔۔   وہ  روہیل اور  وہ ممنائے ۔۔۔
     پلیز ہمیں معاف کر دیں ہم کسی کو نہیں بتائیں گئے ۔۔۔۔  حیات نے روتے ہوئے کہا۔۔۔        اب کی بار ارحم  نے چونک  کر  دونوں کی جانب دیکھا تھا۔۔۔  کیا مطلب ہے ۔۔۔؟
     مطلب جو کچھ آپ کرنے والے ہیں ہم اس بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گئے بس آپ ہمیں بخش دیں۔    روہیل نے اسکو ذرا تفصیل بتائی۔۔۔۔
      میں کیا کرنے والا ہوں ۔۔۔،؟   وہ اب تک سمجھ نہیں پایا تھا۔۔۔
       حیات نے روہیل کی جانب دیکھا ۔۔
           بتاو کیا کرنے والا ہوں میں ۔۔۔؟  وہ اب صاف صاف جاننا چاہتا تھا سبز آنکھوں میں  تجسس تھا۔۔۔۔

آپ چاند رات  کو دھماکا کرنے والے ہیں نا ۔۔؟   حیات نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔
       ایک لمحے کو ارحم کو سمجھ نہیں آیا ۔۔   پھر دوسرے ہی لمحے وہ جان گیا وہ کیا کہہ رہی تھی ۔۔۔۔
       وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ لڑکی اتنی بے وقوف ہو سکتی ہے۔۔۔۔
   
   شکل سے تو بہت معصوم لگتے ہو تم دونوں ۔۔۔ 
     جج۔۔۔۔جی۔۔۔  شکریہ  سب یہ ہی کہتے ہیں ۔۔۔  وہ ڈرتی ڈرتی مزید پیچھے ہوئی۔۔۔۔
     مگر کسی کو کیا معلوم  کہ اتنی معصوم شکلیں بھی کسی دہشت گرد کی جاسوسی کر سکتی ہیں ۔۔۔  وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔۔۔
        ارے بھاڑ میں جائیں آپ  ہم تو صرف اپنے ملک کی حفاظت کر رہے ہیں ۔۔  آپ سے نہیں ڈرتے ہم۔۔۔
     
    اوہ اچھا ۔۔۔ارحم کا جاندار قہقہ بلند ہوا۔۔۔      تو ٹھیک ہے پھر تم دونوں کو بھی اغوا کر لیتا ہوں ۔۔ دہشت گرد تو ہوں ہی۔  اب یہ کام بھی کر گزرتا ہوں۔۔۔  روہیل  نے حیات کی جانب دیکھا  ،   ارے نہیں سر ہم کسی کو نہیں بتا رہے  یہ تو بس یوں ہی جذباتی ہو رہیں ہیں ۔۔   آپ ہمیں جانے دیں پلیز ۔۔۔  ہمیں ابھی ایک روزہ مزید رکھنا ہے۔۔۔  یہ گناہ اپنے سر نا لیں۔۔   روہیل نے ممناتے ہوئے کہا۔۔۔
  ہاں جانے دوں تاکہ تم لوگ میرے خلاف پولیس میں رپوٹ کر دو۔۔۔
     ارحم نے دونوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔
   
   سنو لڑکی تمہاری بھلائی اسی میں ہے میری  جاسوسی کرنا بند کر دو اور اپنے کام سے کام رکھو۔۔۔   میں نے کافی دن سے تمہیں  اپنے آس پاس پایا ہے پہلے تو میں حیران تھا کہ تم لوگوں کی تو میں  نے مدد کی تھی لیکن تم لوگ میری ہی جاسوسی کرنے لگے۔۔ بڑے افسوس کا مقام ہے۔۔۔ پھر اس دن تم میرے گھر میں داخل ہو گئیں ۔۔ میری پرسنل باتیں سن لیں ۔۔  اور پھر فرار ۔۔۔۔  میں تمہارے پیچھے گیا تو تم دونوں اپنی اس  گاڑی میں بیٹھ کر رفو چکر ہو گئے ۔۔۔۔۔
    اور پھر  سگنلز پہ دیکھا وہاں بھی روکنا چاہا میں نے کم از کم یہ اتفاق نہیں کہلایا  جاتا۔۔۔۔   یا  یہ کہہ لو یہ اتفاق تم نے خود پیدا کئیے تھے۔۔۔  وہ اپنے ہاتھ   گاڑی پہ رکھے ان دونوں کو اچھی طرح سمجھا رہا تھا۔۔۔۔
    لیکن آج گویا میں نے تہیہ کر لیا تم دونوں کو پکڑ  کر رہنا ہے ۔۔۔
      اور دیکھ  کو پکڑ لیا۔۔۔۔
     وہ مسکرا کہ بولا۔۔۔
     روہیل اور حیات مسکرا بھی نا سکے اس وقت دونوں کو گھر جانے کی لگی تھی ۔۔۔۔۔
    اس وقت  تم لوگ مجھے  ایک کٹر  مجرم اور خطرناک دہشت گرد  سمجھ رہے ہو گئے ۔۔۔   روہیل نے حیات کی جانب دیکھا ۔۔۔     لیکن تمہارا یہ گمان غلط ہے ،  میں نا ہی عادی مجرم ہوں اور نا ہی دہشت گرد ۔۔۔۔۔
    میں ایک عام انسان ہوں ۔۔۔  جو  چاند رات تک صرف  اپنا  مال بیچنے کی غرض سے رکا ہوا ہے اسکے بعد مجھے یہاں سے چلے جانا ہے ۔۔۔
       تم نے میری آدھی بات سنی تھی اور یہ گمان کر لیا کہ میں کوئی دہشت گرد ہوں جو چاند رات  کو دھماکا کرنے والا ہے۔۔۔۔۔ کاش اے نادان لڑکی تھوڑی عقل  استعمال کی ہوتی۔۔   اب کی بار جسیے اس نے  حیات کی عقل پہ افسوس کیا تھا۔۔۔  دراصل ہم انسان خود سے مجبور ہو کر  لوگوں کو الگ الگ مقامات پہ رکھ لیتے ہیں ۔ کہ فالاں انسان ایسا ہے ،  فالاں ایسا ہے،  یہ گمان ہم خود ہی کرتے ہیں ۔۔۔  جب کہ حقیقت اس سے الگ ہے  ہر انسان دوسرے انسان سے قدرے مختلف ہے،  اسکے سوچنے کا انداز سے لے کر اس کے رہنے کا انداز سب الگ۔۔۔   مگر ہم گمان کرنے سے باز نہیں آتے گمان کرتے جاتے ہیں کرتے ہی جاتے ہیں۔۔   تمہیں پتا ہے بعض گمان گناہ کی طرف لے جاتے ہیں ۔۔  وہ پھر واپسی نا  ممکن ہو جاتی ہے  ۔۔۔

         وہ سن سناٹا  اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔  (ظالم بولتا بھی کمال کا تھا)
 
   اسی  لیئے میں نے آج تم دونوں کو پکڑا ہے تاکہ سب جان سکوں اور بتا سکوں ۔۔۔۔    اب کی بار اس نے قدرے آرام سے دونوں ہاتھ اپنی جینز میں ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔۔ 
        چند لمحے خاموشی چاہی رہی پھر روہیل کی آواز آئی ۔۔۔
  " حیات آپی میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ آپ کا گمان غلط بھی ہو سکتا ہے "

     حیات نے نظریں جھکا لیں" واقعی گمان گمان ہی ہوتے ہیں یہ غلط بھی ہو سکتے ہیں "

       میں چاہوں تو تم دونوں کی اس حرکت کے بارے میں پولیس کو انفارم کر سکتا ہوں حیات  اور روہیل نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا  لیکن نہیں میں ایسا نہیں کروں گا،   میں نے کافی سمجھا دیا ہے امید ہے تمہیں سمجھ آ گیا ہو گا۔۔۔  اور دوسری بات تم مجھے اچھی لگی ہو اس لیئے بھی تمہیں بخش رہا ورنہ تمہارا جرم قابل معافی نہیں ہے۔۔۔۔۔  یہ کہہ کر وہ مسکرا کر واپس مڑ گیا،
    کتنی ہی دیر وہ سن سناٹا بیٹھی رہی ایک ہی بات اس کے کانوں میں گونج رہی تھی "  اور دوسری بات تم مجھے اچھی لگی ہو اس لیئے بھی تمہیں بخش رہا ورنہ تمہارا جرم قابل معافی نہیں ہے۔۔۔۔" 
     
         میں اسے اچھی لگی روہیل ۔۔۔؟  وہ خوشی سے سر شار لہجے میں بولی۔۔۔
        روہیل ہنس دیا۔۔۔
       میں نے کہا تھا نا  یہاں کے لوگ دلچسپ ہیں حیات آپی ۔۔۔!

    کتنے خوب صورت انداز میں آپ کو پرپوز  کر کے گیا ہے یہ لڑکا۔۔۔
      تم نے ٹھیک کہا تھا۔۔۔۔  !

" گمان غلط بھی ہو سکتے ہیں "
   
   اور ا س دہشت گرد نے بھی ٹھیک کہا۔۔۔
    "  بعض گمان گناہ کی طرف لے جاتے ہیں ، پھر وہاں سے واپسی نا ممکن ہو جاتی ہے " 
     روہیل اس کے انداز پہ ہنس دیا ۔۔۔
 
    شکر ہے کل چاند رات سے پہلے ہی معاملہ حل  ہو گیا۔۔۔
  "  ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا کہ چاند رات والی رات بھی ہماری جاسوسی کرتے ہوئے گزرے گئی۔۔۔ "

     وہ مسکرا دی۔۔
      اس بار اسکے ذہن میں گہری سبز آنکھیں آئیں تھیں،۔۔۔

  "   عید کا چاند نظر آئے کا جس دم مجھ کو
  میں تیرے  وصل کی اسے دوست دعا مانگو گئی "

No comments:

Post a Comment